قائد اعظم محمد علی جناح اور آج کا پاکستان
اس بلاگ میں پاکستان کے بانی و عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کو موجودہ پاکستان کے حالات کے ساتھ دیکھا گیا ہے
قائد اعظم اور نرس کی درخواست
قائد اعظم نے اپنے زندگی کے آخری آیام زیارت میں گزارے۔ شدید بیماری کے حالات میں ایک نرس نے آپ کی بہت خدمت کی۔ ایک دن قائداعظم نے اُس نرس سے کہا کہ بیٹی میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ اس سے پہلے آپ نےکبھی بھی کسی سے ایسا کچھ نہیں پوچھا تھا۔ نرس نے جواب دیا کہ جناب والا! میرا گھر سیالکوٹ ہے۔ میرے سارے رشتہ دار وہاں پر ہیں میں اکیلی یہاں زیارت رہ کر ملازمت کر رہی ہوں۔ آپ میرا تبادلہ سیالکوٹ کروادیں تاکہ میں بقیہ زندگی اپنے خاندان کے ساتھ گزار سکوں۔
قائد اعٖظم نے کہا کہ معذرت بچی، میں آپ کی یہ خدمت نہیں کر سکتا۔ یہ سیکریٹری صحت کا کام ہے ایک گورنر جنرل کا کام نہیں ہے۔
قائد اعظم کے اُس پاکستان کو دیکھتے ہوئے اگر آج کے پاکستان کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ابھی تو پاکستان کا ہر ادارہ وڈیروں کے ما تحت ہے(غلط کام کروانے کے لئے)۔ بلکہ حکمرانوں نے خود کئی کئی وزارتیں سنبھالیں ہوئی ہیں۔ یہاں پر اسمبلی ممبر کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ پٹواری کو ہدایت کرے، کسی تھانیدار سے غلط پرچے درج کروائے، محکمہ تعلیم میں غلط ٹرانسفر و تقرریاں کرتاپھیرے۔ اگرآج کا حکمران صرف اپنے کام سے کام رکھتا تو پاکستان کتنا خوبصورت ہوتا، لوگ کتنے آزاد و مطمعین ہوتے۔ انصاف کتنی اسانی سے ملتا ۔ ظلم و زیادتی کا تصور ہی نہ ہوتا۔ افسوس تو اس بات کا ہے،کہ اگر با اثرغنڈے قتل کرتے پھیریں تو آزاد پھرتے ہیں لیکن ایک مفلس اگر روٹی بھی چرائے تو عدالتوں سے پہلے اسے لوگ مار دیتے ہیں۔
قائد اعظم اور ریلوے کا بند پھاٹک
قائد اعظم اپنی گاڑی میں بیٹھے، ملیر کینٹ سے گزر رہے تھے۔ جب آپ کی گاڑی پھاٹک پر پہنچی تو پھاٹک بند ہوا۔ آپ کے ساتھ اے ۔ڈی ۔سی بھی تھے، وہ اُترے اور پھاٹک والے کے پاس گئے ، اس سے کہا کہ آپ کو پتہ نہیں کہ گاڑی میں کون ہے؟ پھاٹک والا پوچھتا ہے کون ہے؟ اے ڈی سی بتاتے ہیں کہ گاڑی میں قائد اعظم بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھاٹک والا ، پھاٹک کھول دیتا ہے۔ قائداعٖظم اے ڈی سی سے پوچھتے ہیں کہ پھاٹک کیوں کُھلا ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ جناب والا! آپ کو انتظار کرنا پڑتا، اس لئے میں نے پھاٹک کھلوا دیا ہے۔ آپ نے کہا کہ پھاٹک بند کر وا دو، میں ایسا پاکستان نہیں چاہتا جس میں وی آئی پی کے لئے گیٹ کُھلیں اور غریب آدمی کے لئے بند رہیں۔
کیا کوئی آج کا حکمران، قائداعظم کے اِسی سوچ کے ساتھ جی سکتا ہے؟ آج کے پاکستان میں کوئی ایسی نظیر مل سکتی ہے؟ آج کل تو ایک حکمران کے بچے کے لئے بھی شاہراہیں گھنٹوں بند رہتی ہیں۔ مریض ، مریض ڈولی (ایمبولنس) میں اِیڑھیاں رگڑ رہے ہوتے ہیں لیکن نہیں، ہمارے بادشاہ ہمارے لئے اہم ہیں۔ راہیں بند رہیں گی۔ ہسپتال بند رہیں گے۔ ہم تو خالی شاہراہوں سے ہی گزریں گے چاہے کوئی زندگی سے کیوں نہ گزرے۔
قائد اعظم یا شہنشاہ پاکستان
ایک دفعہ دہلی میں جارہے تھے۔ آپ کو ایک تصویر دیکھائی گئی جس میں قائداعظم نے سنہرے کپڑے پہن رکھے تھے اور ساتھ لکھا ہوا تھا ”شہنشاہ پاکستان”۔ قائداعظم نے بہت برا منایا اور کہا کہ اس تصویر کو فوراََ اتار دو۔ نقاش نے کہا نہیں ۔ یہ ہماری محبت و عقیدت ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ میں ایسا پاکستان بنا ہی نہیں رہا جس میں بادشاہ اور مہراجہ ہونگیں۔
آج ہمارا وہی پاکستان بادشاہوں کے نظر ہوگیا ہے۔ وزارت کی کرسیاں وراثت میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ کوئی سیدھا سادہ شریف انسان ہمت ہی نہیں کر سکتا کہ کسی وڈھیرے کے خلاف انتخابات میں حصہ لے سکے۔ بہت کم پیسا لوگوں کی فلاح پر خرچ کیا جاتا ہے اور جو خرچ کیا جاتا ہے اُس کا کافی سارا حصہ اشتہاری مہم پر لگا دیا جاتا ہے۔ پیسہ عوام کا ہے، ٹیکس عوام ادا کرتی ہے، تصاویر وڈیروں کی چلتی رہتی ہیں۔
قائد اعظم اور تاجر دوست
قائد اعظم کے ایک دوست آپ کے پاس آئے۔ پیشے سے تاجر تھے اور پرمٹ لینا تھا۔ قائداعظم سے کہتا ہے کہ آپ کے وزیر میرے ساتھ زیا دتی کر رہے ہیں۔ میر احق بنتا ہے لیکن مجھے پرمٹ جاری نہیں کر رہے۔ قائداعظم نے فائل دیکھی اور کہا کہ ہاں پرمٹ تیرا حق بنتا ہے۔ دوست نے کہا کہ آپ وزیر کو ٹیلی فون کر دیجئے کہ وہ میر اپرمٹ جاری کریں۔ قائداعظم نے کہا کہ میں گورنر جنرل اس کو کیوں فون کروں؟ اپ کا حق بنتا ہے جائز کام ہے تو صیح طریقہ استعمال کرکے پرمٹ حاصل کرو غلط طریقہ استعمال کر کے کیوں حاصل کرتے ہو۔
آج اسی پاکستان کے سارے ادارے، پولیس، مال ، تعلیم و صحت وغیرہ وڈیروں کے فون کالز پر چلتے رہتے ہیں۔ اگرکوئی تھوڑی بہت بھی ریسرچ کرتا ہے تو اسے بے شمار ایسے مثالیں ملیں گی کہ ایک طرف قتل ہوا ہوتا ہے اور وہاں کا منتخب شدہ نمائندہ، جو کہ وہی کے عوام منتخب کرتی ہے پولیس کو کال کرتا ہے کہ قاتل کو تنگ نہ کیا جائے۔
قائد اعظم اور دفتر کا خرچ
قائداعظم ہرروز کا حساب لکھا کرتے تھے اور اپنا ذاتی خرچ کھبی بھی سرکاری خزانے سے ادا نہیں کیا۔ ایک روز کل 38 روپے خرچ ہوئے۔ جس میں ٹوتھ پیسٹ وغیرہ خریدا گیا تھا۔دن کے اختتام پر آپ نے ڈائری پر کچھ یوں کمنٹ کیے، کہ یہ پیسے میرے ذاتی اکاونٹ سے لے لئے جائیں۔ یہ فاطمہ کا خرچ ہے، یہ پیسے فاطمہ جناح کے اکاونٹ سے لے لئے جائیں۔ 38 روپے میں صرف ساڑے چھے روپے ایسے تھے جس کے سامنے لکھا ہوا تھا کہ یہ گورنمنٹ خزانے سے ادا کر لئے جائیں ۔
آج کاتقریباَََ ہر ملازم، ہر منتخب نمائندہ قائد اعظم کے ان اسباق سے بے خبر ہے۔ ان کا سارا کا سارا خرچہ جہاں قوم ادا کرتی ہے وہاں عوام ہی کے پیسے کو عیاشیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
قائد اعظم اور برٹش ہائی کمشنر
ایک دفعہ برٹش ہائی کمشنر قائداعظم کے پاس آیا اورکہا کے ملکہ کے بھائی پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ ہماری خواہش ہےکے گورنر جنرل پاکستان ایئر پورٹ جا کر اس کا استقبال کریں۔ قائداعظم نے کہا کہ صیح ہے میں جاوُنگا بلکہ ضرور جاوُنگا لیکن میری ایک شرط ہے کہ جب پاکستان کے گورنر جنرل کی بہن یا بھائی بر طانیہ جائیں گے تو وہاں کی ملکہ بھی اُن کا استقبال خودکریں گی ہم ایک آزاد ملک ہیں اور برابری کی سطح پر تعلقات رکھیں گے۔ کمشنر یہ سن کر واپس چلے گئے۔
آج کے پاکستانی نمائندوں کے لئے استقبال تو درکنار،وہ ائر پورٹ پر ایک لمبے تلاشی کے پروگرام سے گزرتے ہیں اور ممکن ہے کہ ملک میں داخلا دئے بنا ہی واپس بھیج دئے جائیں۔
قائد اعظم اور کالج کے طلبہ
دوسری جنگ عظیم کے دوران (پاکستان بننے سے پہلے) کچھ کالج کے طلبہ قائداعظم سے ملنے آئے۔ انہوں نے قائد اعظم سے کہا کہ سر ! آپ ایک الگ ملک بنا رہے ہیں اور جب یہ ملک بنے گا تو ہم اس ملک کے شہر ی بنیں گے۔ قائداعظم نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں کے ساتھ سائیکلیں ہیں ۔ تو انہوں نے کہا کہ ہاں سارو ں کے پاس ہیں۔ پھر قائدعظم پوچھتے ہیں ۔ کہ آپ کے سائیکلوں پر لائٹ لگی ہوئی ہے؟ اس وقت یہ قانون بنا تھا کہ ہر سائیکل کے ساتھ لائٹ ضرور ہوگی۔ اس گروپ میں سے صرف ایک لڑکے نے کہا کہ ہاں سر میرے سائیکل کے ساتھ لائٹ ہے۔ قائداعظم نے فر مایا کہ تم لوگوں میں سے صرف ایک ہی لڑکا اس نئے ملک کا شہری بن سکتا ہے۔ لڑکوں نے پوچھا کیوں سر۔ تو قائد اعظم نے فرمایا جو شخص ایک چھوٹے سے قانون کی پابندی نہیں کر سکتا ۔ میرے ملک میں ایسے شخص کی کوئی ضرورت نہیں۔ لڑکوں نے کہا کہ سر یہ تو انگریز کا قانون ہے جس کے خلاف آپ اور ہم لڑرہے۔ قائدعظم نے فرما یا۔ قانون ، قانون ہی ہوتا ہے چاہے وہ جس کا بھی ہو۔
آج کے پاکستان کا قانون عوام کے لئے الگ، اشرفاں کے لئے الگ۔ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے روٹی چرائی تو جرم، خزانے لوٹے تو معافی۔
قائد اعظم اور گاندھی
میرے پاس اس گفتگو کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی بھی حوالہ نہیں ہے۔ کہیں ویڈیو میں کسی شخص کو اس گفتگو کو کوٹ کرتے سنا تھا۔ اس گفتگو کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ گفتگوصد فیصد درست ہوگی۔
قائد اعظم سے ایک دفعہ گاندھی نے پوچھا کہ آپ اپنے سیاسی فیصلے کیسے کرتے ہیں؟ قائداعظم نے کہا کہ میں پہلے اپنے فیصلوں کے بارے میں بتانے سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے سیاسی فیصلے کیسے کرتے ہیں۔ گاندھی جی اجازت دیتے ہیں کہ بتائے۔
قائداعظم نے کہا کہ آپ کوئی بھی سیاسی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔ ان کے مزاج کیسے ہیں۔ جب آپ کو لوگوں کے خیالات کا پتہ چل جاتا ہے تو اس کے بعد آپ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے فیصلہ کرتے ہیں اور میں ہمیشہ اس کے برعکس فیصلے کرتا ہوں۔
گاندھی حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ آپ کا کیا مطلب ہے؟ قائداعظم ارشاد فرماتے ہیں کہ میں صرف یہ دیکھتا ہوں کہ غلط کیا ہے اور صیح کیا ہے اور جو مجھے صیح لگتا ہو میں وہی فیصلہ کر دیتا ہوں۔
گاندھی جو پوچھتے ہیں کہ کیا لوگ آپ کے ایسے فیصلے قبول کر لیتے ہیں؟ قائداعظم نے کہا کہ بالکل بھی نہیں۔ شرو ع شروع میں تو بہت مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن میں اپنے فیصلے پر ڈھٹا رہتا ہوں یہاں تک کے میرے مخالفین بھی سچائی کو تسلیم کر لیتے ہیں اور میرے ساتھ ہو لیتے ہیں۔