ہمارا نظام تعلیم تخلیقی صلاحیتوں کو سلب کر رہا ہے

Afzal Badshah, PhD
4 min readMay 26, 2022

“بچہ معصومیت سے جواب دیتا ہے کہ میں خدا کی تصویر بنا رہاہوں”

ایک ڈرائنگ کے استاد بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے نر سری کے بچے کو کاپی پر کچھ عجیب تصویر کھینچتے دیکھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ بیٹا کیا بنا رہے ہو۔ بچہ معصومیت سے جواب دیتا ہے کہ میں خدا کی تصویر بنا رہاہوں۔ استاد اس سے پوچھتا ہے کہ بیٹا خدا کو تو کسی نے دیکھا ہی نہیں توآپ کیسے اس کی تصویر بنا سکتے ہیں؟ وہ بچہ بہت دلچسپ جواب دیتا ہے کہ سر آپ اگر تھوڑا سا انتظار کرلیں گے تو آپ دیکھ لیں گے کہ خدا کیسے دیکھتا ہے۔یہ ایک نرسری جماعت میں آنے والے بچے کی تخلیقی صلاحیت ہے کہ اس نے اپنے تخیل میں خدا کی تصویر بنائی ہے۔

کچھ دن پہلے میں کچھ نئے چھوٹے بچوں میں تھا جنہوں نے ابھی سکول جانا شروع نہیں کیا تھا۔ جب وہ مجھ سے تھوڑے گھل مل گئے تو انہوں نے سوال پر سوال پوچھنا شروع کئے اور اتنے سوال پوچھے کہ مجھے بھی الجھا دیا۔ چاچو آپ کا نام کیا ہے؟ چاچو آپ کا گھر کدھر ہے؟ چاچو آپ کے گھر کا رنگ کیا ہے؟ چاچو یہ گاڑی آپ چلاتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح میری ایک چھوٹی بھتیجی ہے جو بہت سوال کرتی ہے اور میرے ہر جواب سے خود ہی نیا سوال بنا لیتی ہے۔ جب بچے مجھ سے اس قسم کے سوال پوچھتے ہیں تو میں یہی سوچتاہوتا ہوں کہ ہمارا نظام تعلیم کتنی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک بچوں کو لیتی ہے اور جب وہ ان اداروں سے نکلتے ہیں تو ایک سوال نہیں پوچھ سکتے اور نہ ہی سو چ سکتے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں تخلیقی صلاحیتوں کے ختم ہونے کے بڑے سارے وجوہات ہیں لیکن اس میں ایک بڑی وجہ اداروں کا خوف بھی ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب مجھے پرائمری سکول میں داخل کروایا جارہا تھا تو میرے دل میں ایک خوف پیدا کیا گیا تھا کہ اساتذہ سکول میں بہت مارتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک چھوٹا بچہ وہاں کیا پوچھے گا جب اس کو پتہ ہوگا کہ مجھے مار پڑنی ہے۔ اور یہ روایت ابھی بھی نہیں بدلی۔ کچھ دن پہلے ایک بزرگ اپنے پوتے کے ساتھ ہمارے گھر بیٹھے ہوئے تھے ۔ جب چھوٹا بچہ میرے ساتھ ہاتھ نہیں ملا تاتو اس کا دادا اسی طرح ہی اس کو ڈراتا ہے کہ استاد کے ساتھ ہاتھ ملاو ورنہ سکول میں آپ کو مارے گا۔

اب تو اداروں میں مار پر پابندی ہے لیکن اس کے ثمرات ہمارے معاشرے تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ یہ پیچیدہ پیرامیٹر سے جڑا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ اگر والد کو پتہ ہی نہیں میرا بچہ کہا ہے؟ کیا کرتا ہے؟ سکول جاتا ہے یا نہیں؟ مطلب وہ ادارے کے ساتھ تعاون نہیں کرتا تو لازمی بات ہے صرف ادارہ اس کو کبھی بھی ٹھیک نہیں کر پائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب استاد کو (ایک کلاس میں ) ستر، اسی بچےپڑھانے کے لئے دئے جائیں گے تو ظاہر ہے کہ اس نے خوف پیدا کے کے ہی بچوں کوصرف چپ کروانا ہے پڑھائی تو ثانوی رہ جائی گے۔ اس سے بھی ایک ضروری بات یہ ہے کہ امتحانی ادارے (امتحانی بورڈ) اگر بچے کو رٹی رٹائی چیزوں کے لئے چیک کرتے ہیں اور اسی پر اساتذہ و اداروں کو سزائیں و جزائیں ملتی ہیں تو لازم ہے کہ اسی امتحان کے لئے بچوں کو تیار کیا جائے گا۔

اگر ہمیں اپنی نسلوں کو تخلیق کار دیکھنا ہے کہ وہ بھی دوسرے اقوام کی طرح تخلیق کریں اور سائنس و اداب میں نام پیدا کریں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام بالخصوص امتحانی نظام پر کام کرنا ہوگا۔خدانخواستہ، اگر ہم ایسا کچھ نہیں کرپاتے اور اپنے طلبہ کو ایک اچھا تعلیمی نظام نہیں دیتے تو ہم پی۔ایچ۔ڈی ڈاکٹر تو پیدا کرتے رہیں گے لیکن وہ ایک سوال پیدا کرنے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔ اول و ذکر بچے کا تصور تو بہت دور کی بات ہے۔

--

--

Afzal Badshah, PhD

Dr Afzal Badshah focuses on academic skills, pedagogy (teaching skills) and life skills.