ہم نے تو ویسے ہی ڈرائیور بننا ہوتا ہے، پڑھ کر کیا کرنا ہے؟

میں نے بیٹے کو مدرسے(دینی مدرسہ) بھی داخل کرایا ہوا ہے۔ آگے کہتا ہے کہ کل میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو “میں نے اُسے کہا کہ بیٹا مذہبی تعلیم پر توجہ دو اور مدرسے (سکول) کی تعلیم پر اتنا دماغ نہ کھپاو، ہم نے تو ویسے ہی ڈرائیور “بننا ہوتا ہے پڑھ کر کیا کرنا ہے

Afzal Badshah, PhD
3 min readSep 28, 2022

--

Photo by Lukas: https://www.pexels.com/photo/children-s-team-building-on-green-grassland-296301/

میں گاوں کے حمام میں بیٹھا، بال بنا رہا تھا۔ میرے ایک میٹرک کے ہم جماعت کے والد حمام میں داخل ہوئے۔ اس کا دوسرا بیٹا میرا شاگرد تھا اور اپنی جماعت کا اول کا بچہ تھا۔ میں نے اس سے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ ما شا اللہ آپ کا بیٹا پڑھائی میں بہت اچھا جا رہا ہے۔ اس کا خیال رکھیں تاکہ وہ گاوں کے ماحول میں خراب نہ ہو۔ کہنے لگے کہ “میں نے بیٹے کو مدرسے(دینی مدرسہ) بھی داخل کرایا ہوا ہے۔ آگے کہتا ہے کہ کل میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو “میں نے اُسے کہا کہ بیٹا مذہبی تعلیم پر توجہ دو اور مدرسے (سکول) کی تعلیم پر اتنا دماغ نہ کھپاو، ہم نے تو ویسے ہی ڈرائیور بننا ہوتا ہے پڑھ کر کیا کرنا ہے۔”

جماعت دہم کے عملی امتحان کے دوران بچے امتحان سے اکثر غائب ہو جاتے تھے۔ ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ پرچہ ہے کب ۔ میں امتحانی سنٹر پر ایک معلم کی ڈیوٹی ضرور لگاتا تھا کہ کہیں کوئی بچہ امتحان سے رہ نہ جائے۔ ایک دفعہ مجھے معلم نے فون کیا کہ سر امتحانی سنٹر میں تین طلبہ غیر حاضر ہیں۔ میں نے رولنمبر لئے، مدرسے کے ریکارڈ سے ان کے نام و فون نمبر لئے اور ان کے انچارج کو کہا کہ جلدی سے ان کے والدین کو فون کریں اور ان کو امتحانی سنٹر پہنچایں۔ سارے بچوں کو فون کئے گئے۔ رپورٹ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ سر! اس بچے کے ابو کہہ رہے تھے وہ لیٹ ہو گیا ہے اس لئے نہیں گیا۔ ایک دوسرے طالب علم کے نام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سر اس کے ابو کہہ رہے تھے کہ “ پتہ نہیں وہ کہاں ہوگا۔ میں نہیں ڈھونڈ سکتا اُسے۔ دفعہ کرو اس کے امتحان کو۔”

Photo by Naomi Shi: https://www.pexels.com/photo/three-toddler-eating-on-white-table-1001914/

مدرسے کا چارج لینے کے بعد میں نے معلم، والدین و طالب علم کے تعلق پر انتہائی توجہ دی۔ ہر کلاس کے ہر سیکشن کے لئے پراگرس رپورٹ بنائے۔ ایک ایکسل شیٹ مرتب کی جس پر مہانہ رزلٹ و غیر حاضریاں لکھی جاتیں اور ہر بچے کے مہینے کی پوری رپورٹ بنتی۔ مجھے امید تھی کہ جب ہم والدین کو بلائیں گے اور وہ ہماری یہ کاوش دیکھیں گے تو اگلی دفعہ وہ ضرور بچے کی رپورٹ دیکھنے آئیں گے۔ میں نے ہر کلاس انچارج کو یہ بھی تاکید کی کہ جو بھی بچہ غیر حاضر ہو، اس کے والدین کو لازمی فون پر مطلع کریں۔ والدین کی پہلی میٹنگ بلائی تو کوئی 4 سے 5 فیصد والدین نے شرکت کی۔ اس کے بعد بدقسمتی سے یہ تعداد 1 ، 2 فیصد سے نہ بڑھ سکی۔ اور اکثر والدین یہی کہتے رہے کہ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ مدرسہ آسکیں۔

میں ان باتوں کو تحریر میں لا رہا ہوں کہ یہ خاص واقعات ہیں، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ آئے روز کا معمول ہے۔ مدرسے سے والدین کے نمبر پرجب کال جاتی ہے تو اکثر تو یہی ہوتا ہے کہ اگرفون نمبر پہچان لیا جائے تو کوئی سنتا نہیں اگر سن بھی لیا جائے تو کوئی خاص ردعمل نہیں۔

نظام تعلیم میں استاد، والدین و طالب علم ستونوں کی طرح ہیں۔ سارے ستون ہونگے تو تعلیم کا نظام قائم رہے گا نہیں تو یہ نظام نہیں چل سکے گا۔ میرے نزدیک والدین کا کردار باقی دونوں کرداروں سے بہت اہم ہے، کیونکہ کہ طالب علم اس عمر میں اچھائی و برائی میں تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوتا اور استاد و طالب کے درمیان تعلق اتنا طاقتور نہیں جتنا والدین و بچے کے درمیان ہوتا ہے۔

--

--

Afzal Badshah, PhD

Dr Afzal Badshah focuses on academic skills, pedagogy (teaching skills) and life skills.